Article written: Abid Hussain Azad
CPEC vs IMEC
The world’s major economies constantly devise new strategies to outmaneuver one another, create a splash in the world, force their will on others, and work tirelessly to see those strategies through to completion.
The planet is becoming multipolar instead of unipolar. There are now numerous power centers, axes, and alliances operating throughout the world.
Emerging economies are growing; India, following the United States, China, and Germany, is now a significant global economy.
global imperial powers with capitalism-based economies. Liberal and capitalist ideologies have advanced civilization to new heights. With capitalism as its canopy, science has advanced greatly. However, rather of helping people grow and alleviating their suffering, the avarice of individual interests and large profits of capitalist multinational corporations, international financial institutions, and governmental and military bureaucracies held people as property.
The capitalist system’s never-ending crises has gotten to the point that they are willing to do anything to survive, even going to war, killing people, and violating people’s rights.
The major imperialist powers of the world are fighting for their lives as a result of the dire crisis facing capitalism. In their quest for global dominance, they are not hesitant to launch new conflicts via their economic slaves and friends.
When a new plan against the imperialist powers emerges or renders the old ones ineffective, the opposing bloc counters with new plans of its own.
The current state of affairs also befalls China’s Sixth Corridor, which encompasses initiatives such as CPEC and BRI and was hailed as a scheme to dominate the world and develop Asia, including Pakistan.
G20 participants repeated McCarridor. Prior to it, however, during the UN General Assembly, the Israeli Prime Minister took up a map, drew a line with a red marker on it, and declared, “We are enhancing our relations with Arab neighbors and this corridor through India.” Israel will develop into a commercial hub connecting Egypt and Europe with the Middle East. Now, what is the path of this corridor between Egypt and Israel? It does, in fact, cross through Gaza.
Conversely, hardly one is unaware of America’s economic conflict with China or India-Pakistan’s animosity.
In a similar vein, it is also clear that America and India are allies, notwithstanding their rivalry with China.
This capitalist-imperialist struggle is openly expressed in China and Russia’s decision to destroy the petrodollar and form an economic front against the United States.
IMEC
Corridor opposed the CPEC. After the project was viewed as a failure and the announcement of the IMC, China and Russia attacked Israel with Hamas, a group that the US had established to challenge Yasser Arafat, via Iran. And as a result of America’s negligence, Hamas rose to power in Iran.
There is no doubt that Iran, China, or Russia help Hamas, despite Iran’s denial of this possibility. While China’s proof is still pending.
However, the United States, the United Kingdom, and Hamas, an ally, are profiting from the Israeli conflict.
As per current sources, the Palestinians are reportedly fleeing Gaza until the US, Israeli, and British warships and air force arrive. Meanwhile, Russia and Ireland, together with the UN Secretary-General, have asked Israel to halt the ceasefire and stop bombing Gaza. has donated even while America has made it clear that it will resist Israel.
There is a concern that the ramifications of the Hamas-Israeli conflict would reach Iran and Pakistan’s borders and eventually take over the entire Middle East, including South Asia.
Sources claim that in order to carry out the IMC Corridor project, the United States, Great Britain, and its allies are prepared to intervene as much as necessary in the Israel-Hamas conflict. They are also making every effort to remove the Palestinians from the path leading to Gaza. are comparable to the way China exterminated Uighur Muslims in Sinkiang in order to implement the Sixth Corridor Economic Plan.
American imperialism depends on wars because they allow it to sell its weapons, take resources, and somehow finance its faltering economy.
There is also the theological, historical, and regional dimension to the conflict between Israel and Palestine.
In Urdu Translation:
IMEC VS CPEC;
Hamas-Israel Conflict and Role and interests of Super Powers.
دنیا کی بڑی معیشتیں ایک دوسرے پر سبقت لینے ،دنیا میں اپنا سکہ بٹھانے ، اپنے مفادات کےلیے دوسروں پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کے لیے نٸے منصوبے بناتے اور اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے کٸ جتن کرتے ہیں۔
دنیا یونی پولر سے ملٹی پولر بن گٸ ہے۔ اب دنیا میں ایک نہیں بلکہ کٸ طاقت کے مراکز ، محور اور اتحادیں وجود میں آچکی ہیں۔
نٸ معیشتیں ابھر رہی ہیں، جس میں امریکہ چین جرمنی کے بعد بھارت بھی ایک بڑی عالمی معیشت بن چکی ہے۔
عالمی سامراجی طاقتیں جن کی معیشتیں سرمایہ داری کی بنیادوں پر کھڑی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اور لبرل ازم جس نے دنیا کو ترقی کو معراج پر پہنچایا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے چھتری تلے ساٸنس نے بڑی ترقی کی ہے۔ لیکن سرمایہ داروں ملٹی نیشنلز کمپنیوں ، عالمی مالیاتی اداروں اور سیاسی و فوجی بیوروکریسیوں کے ذاتی مفادات اور ذیادہ منافع کی لالچ نے انسانوں کو ترقی دینے اور انسانوں کے دکھوں کا مداوہ کرنے کے بجاۓ انسانوں کو سرماۓ کا غلام بناکر رکھ لیا۔
سرمایہ دارانہ نظام کا نا ختم ہونے والا بحران اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اب اپنی وجود کے بقا کی خاطر جنگ چھڑانے،انسانوں کا خون بہانے اور ہر قسم کا استحصال اور حق تلفی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
سرمایہ داری کے شدید بحران کی وجہ سے عالمی سامراجی طاقتیں اپنی بقا کی جنگ میں مصروف عمل ہونے اور دنیا کی تھانیداری حاصل کرنے کی تگ و دوں میں اپنے اتحادویوں اور اپنے معاشی غلاموں کے زریعے نٸے جنگ چھڑوانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
سامراجی طاقتوں کے پرانے منصوبے بے وقعت ہوجاتے ہیں یا ان کے خلاف کوٸی نیا منصوبہ میدان عمل میں آتا ہے تو پھر اس کو کاونٹر کرنے کے لیے مخالف بلاک کی جانب سے نٸے منصوبے متعارف ہوتے ہیں۔
چین کا سیکستھ کاریڈور جن میں سی پیک اور بی آر آٸی جیسے پراجیکٹ بھی شامل ہیں ، اور جس کو دنیا پر حکمرانی کرنے والے اور پاکستان سمیت براعظم ایشیا کی ترقی کا منصوبہ قرار دیا جارہا تھا موجودہ حالات میں وہ بھی ناکام نظر آرہا ہے۔
جی 20 اجلاس میں آٸی مک کاریڈور کی بازگشت سناٸی دی گٸ۔ لیکن اس سے پہلے اقوام متحدہ کے جنرل اجلاس میں اسراٸیلی وزیر اعظم نے ہاتھ میں ایک نقشہ اٹھایا اور سرخ مارکر کے ساتھ اس نقشے پر ایک لیکر کھینچی اور بتایا کہ ہم عرب ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنارہے ہیں اور بھارت سے ہوتا ہوا یہ کاریڈور مشرق وسطی´ کے ممالک سے ہوتے ہوۓ اسراٸیل مصر اور یورپ تک ایک تجارتی راہداری بنے گی۔ اب اسراٸیل اور مصر میں اس راہداری کا روٹ کونسا ہے، جی ہاں یہ روٹ غزہ ہی سے گزرے گی۔
دوسری جانب امریکہ کی چین سے اقتصادی جنگ اور بھارت پاکستان کی دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
اسی طرح چین بھارت کی مخاصمت اور امریکہ بھارت اتحاد بھی سب پر عیاں ہے۔
چین روس کی کھل امریکہ کے خلاف اقتصادی محاذ کھولنے اور پیٹرو ڈالر کو ختم کرنے کا اعلان اس سرمایہ دارانہ سامراجی جنگ کا کھلا اظہار ہے۔
IMEC
کاریڈور کو سی پیک کے مد مقابل اور سی پیک کا ناکام نظر آنے اور آٸی مک کے اعلان ہونے کے بعد روس چین نے ایران کے زریعے اس حماس سے اسراٸیل پر حملہ کروایا جس کو امریکہ نے یاسر عرفات کے خلاف بنوایا تھا۔ اور امریکہ کی عدم توجہ کی وجہ سے حماس کو ایران کی سرفرستی ملک گٸ۔
روس چین یا ایران کی حماس کا سپورٹ میں کوٸی دو راۓ نہیں اگر چہ ایران نے اس امکان کو مسترد کیا ہے۔ جبکہ چین کا بھی ابھی تک کھل کر ثبوت سامنے نہیں آیا۔
جبکہ دوسری جانب امریکہ برطانیہ اور اس کے اتحادی حماس اسراٸیل جنگ کو اپنے طریقے سے کیش کررہے ہیں۔
اب تک کے اطلاعات کےمطابق اسراٸیل کے وارننگ ،امریکی جنگی بیڑے اور برطانوی ہواٸی جنگی جہازوں کے پہنچنے تک فلسطینی غزہ سے نکل رہے ہیں، اگر چہ روس اور آٸرلینڈ سمیت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اسراٸیل پر جنگ بندی اور غزہ پر بمباری روکنے پر زور دیا ہے جبکہ امریکہ نے کھل کر اسراٸیل کا جنگ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔
حماس اسراٸیل جنگ لمبا ہونے سارے مشرق وسطی´ سمیت جنوبی ایشیا کو اپنے لپیٹ میں لینے اور اس جنگ کے اثرات ایران اور پاکستان کے سرحدوں تک پھیل آنے کا خدشہ ہے۔
سوتروں کے انوسار کے مطابق امریکہ برطانیہ اور اس کے اتحادی آٸی مک کاریڈور منصوبے کو عملی کرنے کے لیے حماس اسراٸیل تنازعے میں ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہیں اور آٸی مک منصوبے کے روٹ غزہ کو فلسطینیوں سے ہر حال میں خالی کرانے تک کوشش میں ہیں۔ بلکل اسی طرح جس طرح چین نے چھٹے کاریڈور معاشی منصوبے کی خاطر سنکیانک میں ایغور مسلمانوں کا صفایا کیا تھا۔
جبکہ امریکی سامراج کی بقا جنگوں میں ہے جہاں اسکا اسلحہ بک سکے جہاں سے وہ وساٸل لوٹ سکے اور اپنی ڈوبتی معیشت کو کسی طریقے سے سہارا دے سکے۔
جبکہ فلسطین اسراٸیل تنازعے کا مذہبی تاریخی اور علاقاٸی پہلو اس کا ایک دوسرا رخ ہے۔